بچے کی پیدائش کے بعد اکثر خواتین بظاہر کسی سبب کے بغیر شدید افسردگی (ڈپریشن) کا شکار ہو جاتی ہیں۔ وہ روتی چلاتی ہیں اور بچے میں کوئی دلچسپی نہیں لیتیں۔ ایسا لگتا ہے جیسے ان کی شخصیت بالکل ہی بدل گئی ہو۔
اگرچہ ایسی خواتین اور ان کے شوہروں کیلئے یہ بڑا ہی تکلیف دہ تجربہ ہوتا ہے لیکن ماہرین نفسیات کے نزدیک یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ بے خبری کی وجہ سے بیشتر خواتین کسی ماہر نفسیات سے رجوع نہیں کرتیں اور بلا ضرورت ایک ایسی تکلیف دہ کیفیت کو برداشت کرتی رہتی ہیں جس کا علاج ممکن ہے۔ دیکھا گیا ہے کہ حاملہ خواتین میں نفسیاتی مسائل خصوصاً افسردگی میں مبتلا ہو جانے کے امکانات غیر حاملہ عورتوں کے مقابلے میں بہت ہی کم ہوتے ہیں، لیکن زچگی کے بعد ان عورتوں میں بھی جن پر کوئی ذہنی دباﺅ نہیں ہوتا اس قسم کے امراض کا شکار ہونے کی شرح بڑھ جاتی ہے۔ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ ان عورتوںمیں جن پر اچھا خاصاذہنی دباﺅ ہوتا ہے اور ان میں جنہیں خاطر خواہ جذباتی سہارے حاصل ہوتے ہیں اس کیفیت میں مبتلا ہو جانے کے امکانات یکساں ہوتے ہیں۔ اس سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ یہ کیفیت کسی نفسیاتی الجھن کی وجہ سے نہیں بلکہ زچگی کے بعد جسم میں حیاتیاتی (Biological) تبدیلیوں کی بنا پر پیدا ہوتی ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ نفسیاتی عوامل کا اس مسئلے سے قطعاً کوئی سروکار نہیںبلکہ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اس میں ان کا کردار محدود ہے۔ حالیہ تحقیق سے پتا چلتاہے کہ زچگی کے بعد زچہ کے بد ن میں ہونے والی حیاتیاتی تبدیلیاں جوذہنی الجھنوں کو جنم دیتی ہیں، زیادہ تر ہارمونز سے تعلق رکھتی ہیں۔ اگرچہ اس کے مکمل میکانزم کا تو ابھی تک علم نہیں ہو سکا ہے مگر ایسا لگتا ہے کہ اس میں ایسٹروجین، پروجیسٹر ون، کورٹی سول، تھائرائڈ ہارمون اور دماغ سے وابستہ غدئہ نخامیہ (پچوٹری گلینڈ) غدود کے ہارمون کی سطح میں تبدیلیوں کا دخل ہے۔ زچگی کے بعد کی ذہنی علالت کی تین قسمیں ہیں۔
زچگی کی پژمُردگی (Maternity Blues)
زچگی کے بعد کی افسردگی(Postpartum Depression)
زچگی کے بعد نفسیاتی الجھن (Postpartum Psychosis )
زچگی کی پژمُردگی
زچگی کے بعد کی علالت کی یہ قسم سب سے زیادہ عام ہے اور 50سے 70 فیصد مائیں اس میں مبتلا ہوتی ہیں۔ اس بیماری میں مریضہ چیختی چلاتی ہے اور اس کا موڈ بدلتا رہتا ہے۔ یہ کیفیت زچگی کے تین یا چار دن بعد شروع ہوتی ہے اور عموماً دس دن سے زیادہ باقی نہیںرہتی۔ یہ زچگی کے بعد کی بیماریوں میں سب سے زیادہ ہلکی ہے۔ اس میں کسی علاج کی ضرورت نہیں ہوتی۔ بس مریضہ کی دل جوئی کرتے رہنا چاہیے۔
زچگی کے بعد کی افسردگی
یہ افسردگی درمیانے سے لے کر شدید درجے تک کی ہو سکتی ہے۔ یہ کیفیت بچے کی پیدائش کے چند ہفتوں بعد رفتہ رفتہ طاری ہونے لگتی ہے۔ علامتوں میںنیند میں کمی، کمزوری، تھکن، بدن میں درد اور معمول کی پسندیدہ سرگرمیوں سے عدم دلچسپی شامل ہیں۔ یہ بیماری بے چینی سے شروع ہوتی ہے جو بعد میں افسردگی کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔
اس طرح کی کیفیت دس سے پندرہ فیصد ماﺅں کو لاحق ہوتی ہے لیکن اگر کوئی عورت ایک بار اس علامت سے گزر جائے تو اگلی زچگی کے بعد اس کی کیفیت میںمبتلا ہونے کے امکانات محض پچاس فیصد رہ جاتے ہیں لیکن ان کے معالج کو چاہیے کہ وہ صورت حال پر نظر رکھے۔ اگرچہ اس نوعیت کی علالت زچگی کی پژ مردگی کی نسبت کم ہوتی ہے لیکن اس کے اثرات زیادہ شدید ہوتے ہیں اور مریضہ مہینوں ان میں مبتلا رہتی ہے۔ خصوصاً اگر فوراً اس کی تشخیص کرکے علاج شروع نہ کر دیاجائے۔
زچگی کے بعد نفسیاتی الجھن
زچگی کے بعد کی علالتوں میںیہ سب سے زیادہ شدید اورپریشان کن ہوتی ہے۔ یہ عموماً بچے کی پیدائش کے بعدتیسرے اور چوتھے ہفتوں کے درمیان شروع ہوتی ہے۔ اس کا آغاز نیند کم ہو جانے اور اضطرابی کیفیت پیدا ہونے سے ہوتا ہے۔ پھر جلد ہی مریضہ وسوسوں اور وہم میں مبتلا ہونے لگتی ہے۔ مثلاً وہ اپنوں پر شک کرنے لگتی ہے کہ کہیںانہوں نے اس کے کھانے میں زہر نہ ملا دیا ہو۔ پھر اسے ایسی باتیںسنائی دینے لگتی ہیں اور ایسی صورتیں نظر آنے لگتی ہے جن کا کوئی حقیقی وجود نہیں ہوتا۔ مختصر یہ کہ اس کی حالت ایک ایسے شخص کی طرح ہو جاتی ہے جو اپنا ذہنی توازن کھو چکا ہو۔ عموماً یہ صورت حال کئی ماہ تک برقرار رہتی ہے لیکن اگر بروقت مناسب علاج کر لیا جائے تو یہ مدت کم بھی ہو سکتی ہے۔
زچگی کے بعد کی علالتوں میں یہ قسم ایسی ہے جس کے ہونے کاامکان سب سے کم ہوتا ہے، یعنی 500زچگیوں میں ایک۔ لیکن اگر کوئی عورت اس علالت کا ایک بار شکار ہو جائے تو اگلی زچگی کے دوران اس میں مبتلا ہونے کے امکانات تین میں ایک ہو جاتے ہیں۔ اس کیفیت میں مر یضہ خود اپنا بھی خیال نہیں رکھ سکتی، بچے کا کیا رکھے گی۔ اس بیماری کا سب سے زیادہ ہولناک پہلو یہ ہے کہ ایسی عورتوں میں سے چار فیصد اپنے نوزائیدہ بچے کو قتل کر دیتی ہیں۔ یہ بیماری زچگی کے بعد کے امراض میں نہ صرف اپنی علامتوں کی وجہ سے خوفناک ہے بلکہ اس کیلئے بھی خطرناک ہے کہ اگر اس کا مناسب علاج نہ کیا جائے تو اس کے آگے چل کر پھر اُبھر آنے کے امکانات بہت زیادہ ہوتے ہیں۔ نیز اس کے نتائج شیرخوار بچے، ماں اور پورے خاندان کیلئے انتہائی تباہ کن ہو سکتے ہیں۔اس بیماری کے حوالے سے ایک اہم بات یہ ہے کہ جتنا جلد اس کی تشخیص ہو جائے اور علاج شروع کر دیا جائے، علاج اتنا ہی زیادہ موثر ہوتا ہے۔اگر کسی کو یہ مرض لاحق ہو جائے تو سب سے اچھا طریقہ یہ ہے کہ مریضہ کو ہسپتال میں داخل کرا دیا جائے اور عارضی طور پر بچے کو اس سے الگ کر دیا جائے۔ مریضہ کو گھر میں تنہا چھوڑ دیا گیا تو امکان یہی ہے کہ وہ بچے کو بھی نقصان پہنچائے گی اور خود اپنا بھی نقصان کر لے گی۔
Ubqari Magazine Rated 4.5 / 5 based on 635
reviews.
شیخ الوظائف کا تعارف
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں